
شب براءت کی شرعی حیثیت
شب برأت کی حقیقت
""شب"" فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "رات"
.۔اور لفظ ""برأت"" عربی، اردو اور فارسی۔میں الگ الگ۔معنی دے گا.
عربی میں برأت۔کے معنی بےزاری، نفرت اور لاتعلقی۔کے ہیں.
حوالہ: سورة البقرہ> 167 سورة التوبه> 1
اردو میں بارات سے مراد وہ جلوس جو دولہااپنے ساتھ شادی کیلئے لے کر۔جاتا ہے
اور
فارسی میں۔برأت ۔یعنی حصہ، اور وہ کاغذ جس کے ذریعہ سے کسی کا روزینہ خزانہ سے ملتا ہو۔ یا کاغذ ہے جس کی وجہ سے خزانہ سے روپیہ ملتا ہو۔ (غیاث اللغات ص؍۷۰)
لہذا
شب_برأت۔کے خالص عربی۔نہ ہونے سے ہی اس کے بناوٹی۔ہونے کا ثبوت۔ملتاہے.
قرآن اور حدیث۔عربی میں نازل ہوا تھا نہ کہ فارسی میں.
اگر دین میں۔اس کا کوئی۔ثبوت ہوتا تواس کا نام عربی میں"لیلة البراة"۔ہوتا.
شب برأت کی حقیقت
"ایک غلط فہمی"
بعض لوگ سورة الدخان۔کی آیت سے
اس رات کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
القــرآن الکـریـم
حم.
اس بیان کرنے والی کتاب کی قسم!
بےشک ہم نےاس (قرآن) کوایک بہت برکت والی رات میں اتارا،بےشک ہم ڈرانےوالے ہیں.
اسی (رات) میں ہر محکم کام کافیصلہ کیا جاتاہے.
[سورة الدخان]آیت: 3-2-1
اب اگر غور کیا
جائے تو بات
واضح ہے کہ
لیلة مبارکہ,لیلة القدر ہے
جس میں قرآن نازل کیا گیا،
جو رمضان المبارک کے مہینہ میں آتی ہے👇🏻.
القــرآن الکـریـم
¤شھر رمضان الذي انزل فیه القرآن¤
ترجمہ:
رمضان وہ(مبارکـــ)مہینہ ہےجس میں قرآن کونازل کیا گیا.
[سورة البقرہ]آیت: 185
¤انآ انزلنه في لیلة القدر¤
بےشک ہم نےاس ( قرآن )کولیلة القدر میں اتارا ہے.
[سورة القدر]
نہ کہ پندرھویں
شعبان کو.
نوٹ👇🏻
اور اس رات کی خاص عبادت اورنفل نوافل کا کوئی قرآن و حدیث میں ذکر نہیں
اگر کوئی روایات بیان کی جاتی ہیں تو وہ
جھوٹ اور من گھڑت پہ مبنی ہیں
شب برأت کی حقیقت
🍃سوال:
کیا شعبان کی پندرھویں رات کولوگوں کی تقدیریںاور
موت وحیات وغیره کے فیصلے ہوتےہیں؟
جواب👇🏻:
جی نہیں!
قران اورحدیث سےایسا کچھ بھی ثابت نہیں
بلکہ الـلـہ تعالی نے انسان کی پیدائش سےپہلےہی اسکی زندگی،موت وغیرہ کا فیصلہ لکھ دیا ہے.👇🏻
القــــــران
🌷اللہ کے حکم کے بغیر کوئی جاندار نہیں مر سکتا،مقرر شده وقت لکھا ہوا ہے.
[سورة آل عمران]آیت 145
🌷حدیث مبارکہ
🌹پیارےرسـول الـلـہﷺ👇🏻نے ارشاد فرمایا!
اللہ تعالی نےزمین اور آسمان کی پیدائش سے50 ہزار سال پہلےھی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں.
[صحیح مسلم]حدیث: 6748
شب براءت کی حقیقت
سوال:
کیا شعبان کی15ویں رات کوہی نامہ_اعمال،خصوصی طور پرالله کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اورکیا 15شعبان کو روزہ رکھناثابت پے؟
جواب-👇🏻
جی نہیں!
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15 شعبان کواعمال نامےپیش ہونے اوراس دن روزہ رکھنے کا ذکرہو،
بلکہ ہرسومواراور جمعرات کواعمال نامےاللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتےہیں اور اس لیے سوموار اورجمعرات کو روزہ رکھنابھی آپﷺکی سنت ہے.
دلیل👇🏻
🌹پیارےرســول الـلہﷺ نے فرمایا:
"سوموار اور جمعرات کو اعمال(اللہ کی بارگاہ میں)پیش کیے جاتے ہیں،میں پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے سے ہوں"
[جامع ترمذی]حدیث: 747
شب براءت کی حقیقت
سوال:
کیا اللہ تعالی15شعبان کی رات کو دنیا کے آسمان پر نزول فرماتاہےبلکہ الـلـہ ہر رات دنیا کےآسمان پر نزول فرماتا ہے۔
دلیل👇🏻
🌹پیارےرســول الــلــہﷺ نے فرمایا:
"🌷ہمارا رب بلنداور برکت والاہررات کے آخری حصے میں دنیا کے آسمان پر نزول فرماتاہےاور پکارتاہے:
کـون ہے
🤲🏻جومجھ سے دعـاکرےکہ میں اس کی دعـاقبول کروں،
کـون ہے
🏫جومجھ سے مانگےکہ میں اسےعطا کروں،
کـون ہے جو
🍃مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اسے معاف کردوں۔"
[صحیح بخاری]حدیث: 1145
شب براءت کی حقیقت
سوال:
کیا 15شعبان کی رات کوخصوصی طور پر قبرستان جانا چاہئ؟
جواب-👇🏻
جی نہیں!
15شعبان کی رات کو خاص اہتمام کے ساتھ قبرستان جانےکے حوالے سےکوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد مـوت کویاد کرنا ہے.
🌹پیارےرســول اللہﷺ نے فرمایا:
🌷قبروں کی زیارت کیا کرو،یہ موت یاددلاتی ہے۔
[صحیح مسلم]کتاب الجنائزحدیث:
آج بہت سے لوگ اور مکاتب فکر ماہ شعبان کی درمیانی رات کو ایک مذہبی تہوار کے طور پر بڑے زور و شور سے مناتے ہیں اور اسے ’’شب براءت ‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لیکن انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ دین اسلام کے ایک مقدس تہوار کے نام سے کیا جانے والا یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔
جب اِس تہوار کا ثبوت طلب کیا جائے تو دیگر کئی بدعات کی طرح یہاں بھی قرآن و احادیث صحیحہ کے مستند دلائل کے بجائے احبار و رہبان کی کتب کی جانب مراجعت کا حکم دیا جاتا ہے۔حالانکہ دین اسلام تو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی مکمل ہوچکا تھا، اور ساتھ ہی دین میں نت نئی باتیں ایجاد کرنے کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو متنبہ بھی کردیا تھا، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
’’جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے(یعنی یہ عمل نامقبول ہے )۔‘‘
(بخاری، کتاب الصلح، بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ)
اسی طرح جابر بن عبداللہ رضی اللہ اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
*فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ*
*’’پس بہترین کہی ہوہی بات اللہ کی بات ہے اور بہرین راہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور بدترین چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘*
(مسلم: کتاب الجمعہ ، باب: خطبہ جمعہ و صلوٰۃ الجمعہ ۔ ۔ ۔ )
لہٰذا دین اسلام میں کوئی بھی نئی نیا کام ایجاد کرنا نہ صرف مردود (قابل رد)ہےبلکہ گمراہی اور ایک اور روایت کے مطابق جہنم میں لے جانے والا بھی ہے۔لیکن آج امت نے قرآن و سنت سے دور ہوجانے اور علماء کی اندھی تقلید کے نتیجے میں بے شمار بدعات اپنا لی ہیں اور ان ہی میں سے ایک ’’ شب براءت‘‘ بھی ہے۔صحیح احادیث میں اس رات کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا نیکیوں کے حریص اُن کے جاں نثار صحابہ اکرام علیہم الرضوان نے یہ رات خصوصی طور پر جاگ کر اِس انداز میں گزاری ہو جیسا کہ آج گزاری جارہی ہے۔
جب دلائل طلب کیے جائیں تو بطور ثبوت سورۃ الدخان کی آیت:3 پیش کی جاتی ہے جوکہ واضح طور پر لیلة القدر کے بارے میں نازل ہوئی(اِس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی ان شاء اللہ)۔
ماہ شعبان کیے آغاز میں ہی اس ضمن میں مختلف مضامین و کتب اور اخبارات و جرائد میں خصوصی تحاریر شائع کی جاتی ہیں، البتہ اُن میں کسی ایک صحیح حدیث کا وجود ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پاتا۔البتہ غیر مستند اور بے اصل روایات کا ایک انبار ہوتا ہے، جن کی بنیاد پر اپنے تئیں شب براءت کو دین اسلام کا ایک تہوار ثابت کردیا جاتا ہے۔
صحیح احادیث میں تو نہیں، البتہ چند مولوی حضرات کی تقاریر و تحاریر سے معلوم ہوا کہ اس رات کو لیلة الردة،لیلةالبارکة،لیلة الرحمةاور لیلة العککہا جاتا ہے۔
اب کوئی ہوشمند یہ سوال کرے کہ جناب قرآن کی کسی آیت یا صحیح حدیث میں تو ایسی کسی رات کا ذکرہی نہیں جس کے یہ مذکورہ نام ہوں ، تو آپ تک یہ ربّانی خبریں کن ذرائع سے آں پہنچیں؟ لیکن حقیقت تو یہ ہے اگر اِس طرح تحقیق اور سوال کرنے کی عادت عوام الناس میں آج باقی ہوتی تو احبار و رہبان کے ہاتھوں یہ دین جو انسانوں کو ایک امت بنانے کے لیے نازل کیا گیا تھا، وہ اس انداز سے تفرقہ اندازی کا شکارنہ ہوتا اور نہ ہی توحید کے نام پر کفر و شرک اور سنت کے نام پر طرح طرح کی بدعات اسلام میں لا داخل کی جاتیں۔
تایخ کے اوراق میں تلاش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس رات کی جنم بھومی مجوسیوں کا ملک فارس تھا اور انہوں نے بنو عباس کے دور میں اقتدار پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اپنے قدیم آتش پرستانہ عقائد و رسوم کوجب اسلامی بنانے کی کوششیں کیں تو انہی میں ایک کام یہ بھی کیا کہ اس رات آتش بازی کر کےاپنی دیرینہ خواہش کو پورا کیا گیا، حالانکہ آتش بازی ایک ایسا شیطانی فعل ہے جس کی تمام سلیم الفطرت افرادمذمت ہی کرتےنظر آئیں گے،لیکن یہ افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجوسیوں سے متاثر کچھ لوگ اس فعل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اس دن اپنے خود ساختہ امام کی پیدائش کا جشن بھی مناتے ہیں ۔ شہر کراچی میں تو نیٹی جیٹی کے پل پر اس رات ایک خاص مکتبہ فکر کے افراد کا اژدھام ہوتا ہے ؛وہ کاغذ کی پرچیوں پر اپنی عرضیاں لکھ کر آٹے میں لپیٹ کر سمندر میں ڈال دیتے ہیں جوان کے عقائد کے مطابق ان کے ’روپوش امام ‘تک پہنچ جاتی ہیں اور وہ ان کی مرادوں کو پورا کر دیتے ہیں۔ یہ دین کے نام پر توہم پرستی کی بدترین شکل ہے۔
کچھ مسلکی اکابرین اس رات میں جاگنے اور عبادت کرنے کو سنت قرار دیتے اوربطور ثبوت فرمان رسول ﷺ نقل کرتے ہیں کہ’’ اس رات جس نے اللہ کی عبادت کی دربار الہی میں اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے خواہ وہ اپنی بلندی اور وسعتوں کے اعتبار سے پہاڑوں کے برابر کیوں نہ ہوں‘‘۔حالانکہ کسی ایک صحیح روایت میں بھی ی ذکر نہیں ملتا کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے اس رات خصوصی طور پر شب بیداری کی ہو اور رات بھر عبادت کرتے رہے ہوں ۔اب غور طلب بات تو یہ ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جو نیکیوں کے حریص تھے ، وہ ایسا قیمتی موقعہ کیسے ضائع کر سکتے تھے؟
اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ ’’ شب ‘‘ ( رات ) عربی کا نہیں بلکہ فارسی کا لفظ ہے ۔ یعنی’’ شب براءت ‘‘ کا تعلق اُس اسلام سے نہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عربی زبان میں نازل کیا گیابلکہ یہ تو اہل فارس یعنی ایرانی مجوسیوں کی ایجاد ہے۔
مزید ستم ظریفی یہ کہ مذہبی اکابرین اس کے اثبات و جواز کے لیے آیات قرآنی آیات و احادیث میں تحریف تک کر بیٹھتے ہیں اور وہ آیت جو صریحاً لیلۃ القدر کے بارے میں ہے ، اسے شب براءت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تو وہ کام ہے جس کو یہودیوں کی غلط عادات میں شمار کروایا گیا کہ:
یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ
’’کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں‘‘
( النساء:46)
لیکن کتاب اللہ کا یہ اعجاز ہے کہ کوئی ناعاقبت اندیش اِس کے معنیٰ میں تحریف کر کے اپنی مزعومہ نظریے کو ثابت بھی کرنا چاہے تو اِسی کتاب کی دیگر آیات میں الجھ کر اوندھے منہ گر پڑتا ہےاور کتاب اُس کا پردہ فاش کردیتی ہے۔آپ کے سامنے ذیل میں وہی آیت بیان کی جا رہی ہے جس کے معنی اور تشریح کو بدل کرمذہبی اکابرین اسے ’’ شب براءت ‘‘ کے اثبات میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ
’’ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا بیشک ہم تو ڈرانے والے ہیں ۔‘‘
(الدخان: 3)
اس آیت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دراصل یہی ’شب براءت‘ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔اب اگر تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں ایک اور جگہ بھی اِسی رات کا ذکر ایک مختلف نام کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورۃ القدر)
’’ ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور روح القدس اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے، ہر امر کے لیے۔ سراسر سلامتی ہے یہ (رات طلوع) فجر تک ۔‘‘
سو معلوم ہوا کہ لیلۃ المبارکۃ(الدخان:3) اور لیلۃ القدر (القدر:1) دونوں ایک ہی رات کے دو نام ہیں، اور اس ہی رات میں قرآن کا نزول ہوا۔ اب آتے ہیں ایک اور آیت کی جانب جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نزول قرآن کا مہینہ بھی بیان فرمایا ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ :185 )
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ ‘‘
لہٰذا یہ مسئلہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ لیلۃ المبارکۃ اور لیلۃ القدر ماہ رمضان ہی کی ایک رات کے نام ہیں، اور احادیث صحیحہ میں اِس کی مزید تفصیلات بھی موجود ہیں کہ یہ ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ یہ بات بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان ماہ رمضان کی آخری پانچ طاق راتوں میں اللہ تعالیٰ کی کثرت سے عبادت کیا کرتے تھے، لیکن افسوس اُن علماء پر جو یہ تمام آیات اور احادیث جاننے کے باوجود بھی اِس رات کو ماہ شعبان کی درمیانی رات ثابت کرنے کی سعی و جہد میں مبتلا ہیں۔

شب برات کی بدعات
ہمارے معاشرے میں شب برات کے حوالے سے درج ذیل بدعات پائی جاتی ہیںجن کی نقل و عقل میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا
یہ بری رسم سوائے پاکستان کے دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں یہ رسم ہندوؤں سے وراثت میں ملی ہے ۔آتش بازی ہندوؤں کی رسم دیوالی کی نقل ہے۔ علاوہ ازیں اس میں آتش پرست مجوسیوںسے بھی مشابہت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )) (۲۶)
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (یعنی اس کا مجھ سے او ر دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے )۔‘‘
ایک تو اس رسم میں ہندوؤں اور مجوسیوں کی مشابہت ہے دوسرا اس میں اسراف اور تبذیر ہے۔ لاکھوں روپے آگ کی نذر ہو جاتے ہیں‘ حالانکہ اسی رقم کو معاشرے کے غرباء اور مساکین کی فلاح و بہبودمیں لگایا جا سکتا ہے ۔ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ الْمُبَـذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰـطِیْنِ ط} (الاسرائ:۲۷)
’’بے شک فضول خرچ شیاطین کے بھائی ہیں۔ ‘‘
آتش بازی کی سب سے بڑی قباحت جو آئے دن دیکھنے میں آتی ہے‘ وہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ قومی روزناموں میں یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی شادی میں پورا خاندان بس میں موجود پٹاخوں کے آگ پکڑنے کی وجہ سے جل کر راکھ ہو گیا ۔لہٰذا آتش بازی چاہے شب برات پر ہو یا دوسرے مواقع پر‘ ایک شیطانی فعل ہے اور ممنوع ہے۔
شب برات کا حلوہ
حلوہ پکانا اور کھانا ایک مباح امر ہے ۔سال بھر میں کسی بھی دن ‘ کسی بھی وقت میں پکایا اور کھا یا جا سکتا ہے‘ لیکن شب برات میں اس عقیدے کے ساتھ حلوہ تیار کرنا کہ یہ ہمارے مُردوں کی عید ہے اور ان کی ارواح اس دن اپنے گھروں کو واپس لوٹتی ہیں ‘ ایک مَن گھڑت عقیدہ و عمل ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اس عمل کے ابطال کے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ہمارے رسول ﷺ کی زندگی میں تقریبا ۲۳ دفعہ شب برات آئی‘ لیکن کیاآپ نے زندگی میں ایک دفعہ بھی حلوہ پوری یا چاول پکوا کر مُردوں کی فاتحہ دلوائی؟ دراصل یہ رسم بھی ہمارے ہاں ہندوؤں سے آئی ہے۔ ہندوبھی سال بھر میں ایک دفعہ حلوا پکا کر کوؤں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ حلوہ اپنے پرکھوں کو کھلاتے ہیں ۔خلاصۂ کلام یہ کہ حلوہ بنانے اور کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ‘لیکن ایک مخصوص دن میں ایک خاص عقیدے کے تحت مُردوںکو ایصالِ ثواب کی نیت سے حلوہ ‘ کھیر یا چاول وغیرہ تیا ر کرنا ایک ہندوانہ رسم ہے جس کا کوئی ثبوت رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ سے نہیں ملتا۔
قبرستان کی زیارت
قبرستان کی زیارت کرنا مشروع ہے اوررسول اللہﷺ نے اس کا حکم بھی فرمایا ۔آپؐ کی حدیث ہے :
((کُنْتُ نَھَیْتُـکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ… فَزُوْرُوْھَا فَاِنَّھَا تُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ))(۲۷)
’’میں نے پہلے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا …پس اب تم ان کی زیارت کیا کرو‘کیونکہ قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے‘‘ ۔
لیکن پندرہ شعبا ن کی رات کو جلوس کی شکل بنا کرچراغاں کرتے ہوئے قبرستان کے لیے نکلنااور اسے سنت سمجھنا بالکل غلط ہے۔ رسول اللہﷺ کی کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ پندرہ شعبان کی رات کو قبرستان کے لیے نکلے ہوں۔ اس کے لیے عموماً جو احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ ضعیف روایات ہیں ۔لہٰذا قبرستان جانا تو سنت ہے ‘لیکن خصوصاً پندرہ شعبان کی رات کو جانا سنت نہیں ہے ۔
شب برات کی مخصوص عبادات
نصف شعبان کی رات کی کوئی مخصوص عبادت مثلاً بارہ رکعتیں پڑھنا اور ہر رکعت میں تیس دفعہ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ‘‘پڑھناکسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیںہے ‘بلکہ اس رات کی مخصوص عبادات کے حوالے سے جتنی روایات مروی ہیںوہ موضوعات کے درجے کی ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور موضوع روایات کا بیان کرنا بھی حرام ہے۔
پندرہ شعبان کا روزہ
شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہے ‘لیکن آپؐ نے اپنی اُمت کو پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا‘تاکہ رمضان کے روزوں میں سستی پیدا نہ ہو۔ اور نصف شعبان کا مخصوص روزہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں سوائے ایام البیض کے۔
حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَاْمُرُنَا اَنْ نَصُوْمَ الْبِیْضَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ وَاَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ (۲۸)
’’ اللہ کے ر سول ﷺ ہمیں ایامِ بیض یعنی ہر مہینے کی تیرہ ‘ چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔‘‘
لیکن پندرہ شعبان کے روزے کی علیحدہ سے کوئی خصوصی فضیلت کسی صحیح روایت سے ثابت‘نہیں ہے ۔اس بارے میں جو روایات ہیںوہ موضوع ہیں‘ لہٰذا اگر کوئی شخص ایامِ بیض کے روزے ہر ماہ رکھتا ہے اوروہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھ لے تو اس کے لیے باعث اجروثواب ہو گا۔
اللہ ہمیں ہر قسم کے شرک و بدعات سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
شب براءت یعنی لیلۃ البراءۃ ۔
"اس شب کے اصل بانی رافضی شیعہ تھے"۔ (شب براءت کیا ہے، از علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی)۔
لفظ شب فارسی اور براءت عربی سے لیا گیا ہے۔ قرآن واحادیث میں جہاں بھی یہ لفظ استعمال ھوا ہے، اس نے "بیزاری، نفرت" ہی کا مفہوم دیا ہے۔یہ وہ رات ہے جس میں شیعہ اپنے فرضی بارھویں امام کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین اور تمام مسلمانوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ شیعوں کی کتاب تحفۃ العوام میں اس شب کی بہت ساری منگھڑت فضائل کے ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ "جملہ متذکرہ برکات اس شب کے صرف اس لیے ہے کہ جناب امر علیہ السلام کی شب ولادت ہے" ۔
تقدیر کے فیصلے :
کہا جاتا ہے کہ "شب براءت" میں تقدیر کے فیصلے ھوتے ہیں۔ اور بطور دلیل سورۃ الدخان کی ابتدائ آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
حالانکہ ان آیات میں "شب براءت" نہیں بلکہ "شب قدر" کا بیان ہے، اور "تقدیر کے فیصلے ھونے" کا بیان نہیں بلکہ فرشتوں میں "تقدیر کے فیصلے تقسیم ھونے" کا بیان ہے۔ تقدیر کے فیصلے تو ازل سے ھوچکے ہیں اور کائنات کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تقدیر لکھی جاچکی ہے۔
چلئیے سورۃ الدخان کی ابتدائ آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
ان آیات میں تین امور کا بیان ہیں۔
۔1. قرآن مبارک رات میں نازل ھوا ہے
۔2. اس شب میں تمام پر حکمت احکامات (فرشتوں میں) بانٹ دئیے جاتے ہیں۔
۔3. اس شب میں رحمت کا نزول ھوتا ہے
قاعدہ ہے کہ القرآن یفسر بعضہ بعضا۔ یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ سو ان آیات کی تفسیر قرآن ہی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
سورۃ القدر میں انہی تین امور کا بیان ہے، ملاحظہ کیجئیے۔
۔1. قرآن قدر (عظمت) والی شب میں نازل ھوا ہے۔
۔2. مخلوقات کے لیے اگلے لیلۃ القدر تک جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے، (کائنات کی تدبیر پر مامور) فرشتے اسے لے کر اترتے ہیں۔
۔3. اس شب میں سلامتی کا نزول ھوتا ہے
یہ معمہ تو حل ھو گیا کہ لیلۃ مبارکۃ لیلۃ القدر کا دوسرا نام ہے۔
یہ شب کس ماہ میں ہے؟
قرآن مقدس کہتا ہے کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ھوا ہے۔ (البقرہ آیت نمبر 185. اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ھوتی ہے، شعبان میں نہیں۔
پندرھویں شعبان کی شب :
تفسیر احکام القرآن جلد 2 صفحہ پر امام ابن العربی مالکی (وفات: 543 ھ) پندرھویں شعبان کی رات کی تمام احادیث کو مردود قرار دیتے ھوۓ رقمطراز ہیں :
"لیس فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث یعول الیہ لا فی فضلھا ولا فی نسخ الآجال فیھا فلا تلفتتوا الیھا"۔
نصف شعبان کی شب کے بارے میں کوئ ایسی حدیث نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ نہ اس شب کی فضیلت میں اور نہ موت و زندگی لکھنے کے بارے میں، سو ان روایات کی طرف قطعا توجہ نہ دو۔
نصف شعبان کے روزے سے متعلق روایات:
جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی جلد 2 صفحہ 53 میں محدث عبد الرحمن بن عبد الرحیم مبارکپوری لکھتے ہیں :
لم اجد فی صوم لیلۃ النصف من شعبان حدیثا مرفوعا صحیحا اما حدیث علی الذی رواہ ابن ماجۃ فقد عرفت التضعیف جدا۔
میں نے نصف شعبان کے روزے کے بارے میں کوئ حدیث صحیح مرفوع نہیں پائ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت ابن ماجہ نے روایت کیا ہے وہ تو نہایت ضعیف ہے۔
نصف شعبان کی نماز :
علامہ شبیر احمد عثمانی فتح الملہم شرح مسلم جلد 3 صفحہ 174 میں رقمطراز ہیں:
قال العینی وما احادیث التی فی صلوۃ النصف من شعبان نذکر ابوالخطاب بن دحیہ انھا موضوعۃ
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں کہ نصف شعبان کی نمازوں کے جتنی احادیث ہیں تو ابوالخطاب بن دحیہ فرماتے ہیں یہ سب منگھڑت ہیں۔
نصف شعبان کی شب بارے جتنے بھی روایات ہے سب قطعی مردود ۔۔۔ اور کسی بھی روایت میں "شب براءت" کا نام نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ نام گھڑ کر 15 شعبان کو کیوں الاٹ کیا گیا؟ جواب یہ ہے کہ "نصف شعبان" سے یارلوگوں کا مقصود پورا نہیں ھوسکتا۔ کیونکہ ماہ شعبان اگر 30 دنوں کا ھو تب تو "نصف شعبان" کی شب پندرھویں رات ۔۔۔ لیکن اگر ماہ شعبان 29 دنوں کا ھو تو نصف شعبان کی رات چودھویں شب قرار پاۓ گی۔ اور پندرھویں شعبان سے ادھر ادھر ھونا انہیں قطعا منظور نہیں۔
نصف شعبان ، مغفرت کی رات؟
نصف شعبان کی شب کو مغفرت کی رات قرار دینے کے لیے "یار لوگ" ترمذی سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ:
نصف شعبان کی رات کو اللہ بنوکلب کی بھیڑیوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔لیکن اسی روایت کے تحت امام ترمذی کے ان ریمارکس سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ: امام ابخاری اس حدیث کو ضعیف کہتے تھے۔ اس روایت کی سند میں دو جگہ انقطاع ہے۔ یہ روایت حجاج یحیی سے اور یحی عروہ سے نقل کرتا ہے حالانکہ حجاج کی عروہ سے اور عروہ کی حجاج سے زندگی میں ایک ملاقات بھی ثابت نہیں۔ جو روایت دو جگہ سے منقطع ھو وہ اصول حدیث کی رو سے "معضل" کہلاتی ہے۔ اور معضل شدید قسم کی مردود روایت ھوتی ہے۔
اللہ کا طلوع ھونا :
نصف شعبان کی شب بارے ابن ماجہ کی سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں طلوع فرماتا ہے اور مشرک سکینہ پرور کے علاوہ سب کی مغفرت فرماتا ہے" .
ویسے نزول الہی کا ذکر تو صحیح احادیث میں موجود ہے لیکن یہ طلوع الہی کیا چیز ہے؟ نہ تو قرآن مقدس میں اس کا تذکرہ ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ کسی متکلم، مفسر، فقیہ و محدث نے اس کے معانی پر گفتگو کی ہے۔ نیز طلوع کا تعلق مجسم اشیاء ، سورج چاند وغیرہ سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے جسم کا قول صرف گمراہ فرقوں (مجسمہ، مشبہہ وغیرہ) کا ہے۔
اس روایت کے چار راوی قطعا مجھول اور ایک شدید ضعیف۔ بے بنیاد روایت ہے۔ علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی اپنی کتاب "شب براءت کیا ہے" اس روایت کے ناقل عبداللہ بن لہیعہ (وفات 174 ھ) بارے فرماتے ہیں کہ بخاری ومسلم نے اس سے کوئ روایت نہیں لی۔ ترمذی نے اس کی روایت نقل کرکے اسے ضعیف قرار دیا۔ نسائ کہتے ہیں کہ میں نے کتاب میں اس کی صرف ایک روایت نقل کی ہے اور وہ بھی مجبور ھوکر۔ مقدسی کہتے ہیں متروک ہے۔ ابوزرعہ رازی فرماتے ہیں کذاب (جھوٹا) ہے۔
دیگر محدثین کہتے ہیں کہ اگر ابن لہیعہ سے عبداللہ بن مبارک اور عبداللہ بن اسواریری حدیث نقل کریں تو قابل قبول ھوگی ورنہ قطعا نہیں۔ کیونکہ آخری عمر میں اس کے دماغ نے جواب دے دیا تھا۔ جس کے باعث الٹی سیدھی روایات بیان کرنے لگا۔ اور یہ روایت نہ تو عبداللہ بن مبارک اس سے نقل کررہے ہیں اور اور نہ عبداللہ بن اسواریری۔
ابن عدی اور ذھبی کہتے ہیں کہ ابن لہیعہ کی یہ روایت منکر ہے۔
عبداللہ بن لہیعہ کبھی تو دعوی کرتا ہے کہ یہ روایت زید بن سلیم سے مروی ہے ، اور کبھی کہتا ہے ضحاک بن ایمن سے مروی ہے۔
یہ دونوں حضرات کون ہے؟ امام بن عدی ، ذھبی اور ابن حجر لکھتے ہیں کہ زید بن سلیم مجھول شخص ہے۔ عبد اللہ بن لہیعہ کے علاوہ اس کا کوئ ذکر تک نہیں کرتا۔ اور اس نے صرف اسی روایت میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور خیر سے ضحاک بن ایمن کا بھی یہی حال ہے۔
ابن لہیعہ دعوی کرتا ہے کہ ان دونوں نے یہ روایت ضحاک بن عبدالرحمن بن عرذب سے نقل کی ہے اور کبھی کہتا ہے عبدالرحمن بن عرذب سے ۔ اتفاق سے یہ دونوں بھی مجھول ہے۔
نصف شعبان ، مغفرت کی رات؟
نصف شعبان کی شب کو مغفرت کی رات قرار دینے کے لیے "یار لوگ" ترمذی سے مردود روایت نقل فرماتے ہیں کہ:
نصف شعبان کی رات کو اللہ بنوکلب کی بھیڑیوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔لیکن اسی روایت کے تحت امام ترمذی کے ان ریمارکس سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ: امام ابخاری اس حدیث کو ضعیف کہتے تھے۔ اس روایت کی سند میں دو جگہ انقطاع ہے۔ یہ روایت حجاج یحیی سے اور یحی عروہ سے نقل کرتا ہے حالانکہ حجاج کی عروہ سے اور عروہ کی حجاج سے زندگی میں ایک ملاقات بھی ثابت نہیں۔ جو روایت دو جگہ سے منقطع ھو وہ اصول حدیث کی رو سے "معضل" کہلاتی ہے۔ اور معضل شدید قسم کی مردود روایت ھوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا نزول :
شب براءت (بیزاری کی شب) کے اگلے دن کے روزے سے متعلق ابن ماجہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "نصف شعبان ھو تو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شب میں غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرما ھوتاہے اور فرماتا ہے کہ کوئ استغفار کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں ۔۔۔۔۔ اور اسی طرح صبح صادق تک ھوتا رہتا ہے"۔
اس روایت میں نصف شعبان کی شب کو اللہ تعالیٰ کی نزول کا بیان ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو ھر رات آسمان دنیا کو نزول فرماتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمارا رب تبارک وتعالی ہر رات آسمان دنیا کی جانب نزول فرما ھوتا ہے جب تہائ رات باقی رہ جاتی ہے۔ اور فرتا ہے کہ کون ہے جو پکارے اور میں اس کی دعاء قبول کروں؟ کون ہے جو استغفار کرے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کا راوی ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرۃ المدنی ہے۔ ابن حجر تقریب التہذیب صفحہ 396 پر لکھتے ہیں کہ محدثین نے اسے احادیث گھڑنے والا قرار دیا یے۔ نسائ کتاب الضعفاء صفحہ 115 پر لکھتے ہیں کہ متروک الحدیث ہے۔ بخآری کتاب الضعفاء صفحہ 124 پر لکھتے ہیں کہ ضعیف ہے۔ ابن عدی کامل میں اور ذھبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے۔ امام احمد کا قول ہے کہ یہ شخص احادیث گھڑتا تھا۔ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یہ شخص کوئ چیز نہیں۔ ابن ابی سبرہ سے یہ روایت عبدالرزاق بن ہمام رافضی نے نقل کی ہے، جس کا آخری عمر میں دماغ خراب ہوگیا تھا۔ امام احمد کہتے ہیں اسے سنی سنائ گپ شپ زیادہ پسند تھی۔ میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 608)
د باران نہ پٹیدم
د ناوے لاند م شپہ شوہ
نصف شعبان کی شب بارے "یار لوگ" اس قانون کا سہارا لینا پسند فرماتے ہیں کہ: "اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ھو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ھوجاۓ تو اس کی کمزوری دور ھوجاتی ہے"۔ لیکن امام زیلعی حنفی کی بیان کردہ اس قانون سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ:
بَلْ قَدْ لا يُزِيدُ الحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلّا ضَعْفًا۔ نصب الرایہ 1/360. یعنی بسا اوقات ضعیف روایات کی کثرت اسانید بھی ضعف کی تقویت کا باعث بنتے ہیں ۔
المختصر مومن مسلمان کا ہر شب ورات شب برکت اور عزت والا ہے۔
#SHAB_E_BARAT
#شبِ_برأت
#Islam
#Muslims
#ProphetMuhammad
#HolyQuran
Jazak Allah
ReplyDeleteMasha Allah Good Efforts may Allah Bless you.
ReplyDelete